ہمارے لیے اقبالؒ شناسی کیوں ضروری ہے، یعنی علاّمہ اقبال ؒ کے پیغام، ان کی فکر اور ان کے نظریات و فرمودات کو جاننا اور سمجھنا کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے پہلے خود اقبال ؒ سے متعارف ہونا اور ان کے مقام اور مرتبے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اپنی نئی نسل اور نوجوانوں کو سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ علا ّمہ اقبال ؒ جینئیس تھے، دنیائے شعر و ادب میں اتنا بڑا جینئس دور دور تک کہیں نظر نہیں آتا اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پچھلے ایک ہزار سالہ اسلامی تاریخ میں علا ّمہ اقبال ؒ وہ واحد تھنکر اور شاعر ہیں جو نہ صرف قدیم اور کلاسیکل نظریات اور فلسفے کے شناور تھے بلکہ جدید علوم اور فلسفوں پر بھی مکمّل دسترس رکھتے تھے۔
وہ دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصّیل تھے، دنیا کی غالب تہذیب یعنی مغربی تہذیب کے مرکز میں رہے اور وہاں کے قد آور دانشوروں اور فلسفیوں کے ساتھ مکالمے کرتے رہے وہ جدید دور کی عالمی سیاست، معیشت اور معاشرت سے آشنا تھے اور مسلمانوں کو در پیش جدید دور کے چیلنجوں کا مکمّل ادراک رکھتے تھے۔
پاکستان کا تصوّر بھی اُ نہوں نے دیا۔ اس کے حصول کے لیے درکار جدوّجہد کے لیے میرِ کارواںکا انتخاب بھی اُنہوں نے کیا اور قائد کو ایک پُر آسائش زندگی ترک کر کے برطانیہ سے واپس آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے پر قائل بھی اُنہوں نے کیا۔محمد علی جناح کو قائل بھی وہی کر سکتے تھے کہ جناح ؒصاحب، اقبال ؒ کو اپنا نظریاتی گائیڈ کہتے تھے۔
تو ہمارا عظیم محسن ، ہمارا قومی شاعر،علم و دانش کا کوہ ہمالیہ اور اتنے بلند stature کی یہ غیر معمولی شخصیّت ، مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا کہتی رہی، اس کی اہمیّت اُسوقت بھی بے پناہ تھی اور آج اس سے بھی زیادہ ہے۔ نوجوانی میں ہی جب لاہور کی ایک ادبی تقریب میں انھوں نے نظم پڑھی تو بزرگ شعراء نے اپنی دستاریں اتار کر نوجوان اقبال ؒ کو پہنا دیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چلے گئے تو پورا بّرِ صغیر منتظر تھااور یہ جاننا چاہتا تھا کہ ذہین و فطین اقبال ؒیورپی تہذیب کے گڑھ میں رہ کر کیا بنتا ہے اور اس کی سوچ اور نظریات پر مغربی تعلیم کے کیا اثرات مرّتب ہوتے ہیں۔
اقبالؒ نے یورپ میں رہ کر جدید علوم کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلامی تاریخ کا بہت گہرا مطالعہ کیا تو خالقِ کائنات نے اس کی کایا پلٹ دی، اُسے روشنی عطاء کی اور ایک عظیم مقصد کے لیے چُن لیا۔برطانیہ اور جرمنی سے پی ایچ ڈی اور بار ایٹ لاء کر نے کے بعد جب ڈاکٹر محمد اقبال ؒ واپس لوٹا تو وہ ہندوستا ن کے دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرح یورپی تہذیب کا مدّاح اور رسیا نہیں تھا بلکہ قادر ِ مطلق نے اسے اپنے دین اور اپنے نبیﷺکی عقیدت اور محبتّ سے سرشار اور اُسکے دل و دماغ کو اُمتّ ِ مصطفے ؐکے درد سے لبریز کر دیا تھا ۔ پھر اس نے خدا کی بخشی ہوئی غیر معمولی صلا حیتّوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی غلام، نا امید اور بے عمل قوم کو پکارا تو مایوسی کے اندہیروں میں بھٹکتا ہوا ہجوم گوش بر آواز ہو گیا۔اُسکے کلام میں ایسا شکوہ و جلال اور پیغام میں وہ رفعت و کمال تھا کہ برصغیر کے انسان جس سے نا آشنا تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو اُس پر الہامی ہونے کا گمان ہونے لگا۔
اُسکی سوچ کی گہرائی لازوال اور فکر کی بلندی بے مثال تھی۔ کلام اور پیغام اس قدر پر شکوہ اور پاور فل تھا کہ اُس نے برّ ِ صغیرمیں بسنے والے مسلمانوں کے ہجوم کو ایک زندہ و تابندہ قوم میں بدل دیا۔ مگر اس کا پیغام صرف ایک خطّے یا ایک ملک کے لیے نہیں تھا۔ اس کا کلام الہامی اور پیغام آفاقی تھا۔ جس نے ہندوستان اور پاکستان کی حدود سے باہر بھی کروڑوں انسانوں کو Inspire کیا۔
؎اک ولولہء تازہ دیاتو نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمر قند
اقبال ؒ کو لوگ عظیم ترین شاعر مانتے ہیں مگر اُنکا اصرار تھا کہ مجھے شاعر نہ سمجھا جائے، شاعری کو تو میں نے صرف ذریعہ ء ابلاغ بنایا ہے۔ اپنے عظیم پیغام کی ترسیل اور مقدّس مشن کی تکمیل کے لیے جب اردو زبان کا دامن تنگ محسوس ہوا تو فارسی کا استعمال شروع کر دیا۔ اردو میں چار اور فارسی میں سات کتابیں لکھیّں، فارسی دان تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی زندگی میں فارسی زبان کے عظیم ترین شاعربھی علامہّ اقبال ؒ ہی تھے۔اُس غیر معمولی جینئس نے آقائے دو جہاں ﷺ کی اُمّت کو لاحق امراض کی سو فیصد درست تشخیص کی تو حکیم الاُمّت کا لقب پایا۔ مغرب کے دانشوروں اور فلاسفروں کے سامنے دنیائے مشرق کا مقدمہ موّثر ترین انداز میں پیش کیا توشاعرِ مشرق کا خطاب ملا۔ اورجب نبی کریم ﷺ کی محبت ان کے رگ و پے میں رچ بس گئی تو ربّ ِ ذوالجلال نے انھیں دانائے راز بنا دیا۔
آوازِ دوست جیسی مقبول کتاب کے مصنّف اور سابق بیورو کریٹ مختار مسعود لکھتے ہیں ’’ اقبال ؒ پیغمبروں کے شاعر اور شاعروں کے پیغمبر تھے‘‘پاکستان کے ایک انتہائی مقبول شاعر کے کچھ شاگردوں نے جب اُسے کہا کہ بیسویں صدی تو آپکی صدی ہے تو اُس نے پلٹ کر جواب دیا ’’نہ صرف بیسویں صدی بلکہ آنے والی صدیاں بھی اقبال ؒ کی ہیں۔ آنے والے زمانوں میں بھی اس کا پیغام اور فکر زندہ و تابندہ رہیگی‘‘ ۔
آج صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان ہی نہیں کئی اسلامی ملکوں میں اقبال ؒ کو قومی شاعر کا درجہ حاصل ہے۔ دنیائے اسلام کے دونوں عظیم لیڈر طیّب اردوان اور ڈاکٹر مہاتیر با رہا کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے فکری توانائی ڈاکٹر محمد اقبال ؒ سے حاصل کی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی بڑے فخر سے اپنے آپ کو مرید ِ اقبال ؒ کہتے ہیں۔ سینٹرل ایشیاء کے ملک تاجکستان کے پاکستان میں متعینّہ سفیر سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو میں نے یونہی پوچھا آپ اقبال ؒ سے واقف ہیں؟ بڑے پُر جوش لہجے میں بولے اقبال ؒ کو ہمارے ملک کا بچہّ بچّہ جانتا ہے، وہ ہمارے عظیم محسن ہیں، جب ہم روسی جبر سے آزاد ہونے کے لیے سڑکوں پر نکلے تو لاکھوں کے مجمعوںکو گرمانے کے لیے اقبال ؒ کی نظمیں سنائی جاتی تھیں:
؎معمار ِ حرم بازبہ تعمیر جہاں خیز۔۔ از خوابِ خیز گراں خیز گراں خیز(حرم مسلمانوں کے لیے مرکز تعمیر کرنے والے مسلمانو! اب ایک نئی دنیا کی تعمیر کے لیے اٹھو۔ گہری نیند سے بیدار ہو جاؤ ، اٹھو ، اٹھو)
ہمارے مذہبی راہنما کسی غیر مسلم کی قیادت تسلیم کر لیں گے مگر کسی مسلم اسکالر کی عظمت تسلیم نہیں کریں گے۔ مگر علاّمہ اقبال ؒ واحد شخصیّت ہیں جن کی عظمت مسلمانوں کے ہر مسلک کے جیّد علماء تسلیم کرتے ہیں، ان کی فکر و فلسفے سے مستفیض ہوتے ہیں اور اپنی تقریروں اور تحریروں کو ان کے شعروں سے مزیّن کرتے ہیں۔ معروف عرب اسکالر استاذ عباس محمود العفاء کہتے ہیں ’’اقبال ؒ صرف اس دور کے لیے نہیں وہ ہر زمانے کی ضرورت ہیں۔”
ڈاکٹر محمد حسین ھیکل لکھتے ہیں‘‘عالم اسلامی بلکہ تمام عالم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ظہور ہوا جس نے جدید فلسفے کو اس انداز سے اپنے شعروں میں ڈھالا کہ دل اور روح جھوم اٹھے’’ استاذاحمد حسن الزّیات لکھتے ہیں‘‘ اگر حسّان شاعرِ رسول ہیں تو اقبال ؒ شاعرِ رسالت۔ مشرق و مغرب میں کوئی اقبال ؒ کا ہم پلّہ نہیں ’’ بّرِ صغیر کے عظیم اسکالر علامہ ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں’’مجھے اقبال ؒ سے محبتّ ہے کہ وہ بلند افکار، مغرب کی مادہ پرست تہذیب کا پردہ چاک کرنے والے اسلامی شان کے داعی اور مسلمانوں کی عظمت کے داعی ہیں، میں نے جب بھی اسکا شعر پڑھا میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
میرے احساس کے تار جھنجھنا اٹھے اور مجھے اپنی رگوں میں اسلامی حمیّت دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ‘‘ ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی نے کہا ’’اقبال ؒ کے شعر ان کی آنکھوں کے آنسو نہیں ان کے دل سے ٹپکنے والا لہو ہے‘‘ مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی ؒ لکھتے ہیں ’’واقعہ یہ ہے کہ 1924 ء سے 1938 ء تک اسلامی جذبے کے احیاء کے لیے اور مسلمانوں میں ملّی شعور بیدار کرنے کے لیے اگر کوئی سب سے بڑی طاقت کام کر رہی تھی تو وہ اکیلے اقبال ؒ کی طاقت تھی ۔۔۔،مغربی فلسفے اور علوم کے شناور اقبال ؒ نے جب مغربی مادہ پرستی اور مغربی افکار پر چوٹ لگائی تو مسلمانوں میں مغرب کی جو مر عوبیّت طاری تھی وہ کافور ہونے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مرعوبیّت کو توڑنے میں اکیلے اقبال ؒ کا کارنامہ سب سے بڑھکر ہے۔
جب مغربی فلسفے پر عبور رکھنے والے اقبال ؒ نے ایک مجتہدانہ شان کے ساتھ اسلام کی حقانیت کی شہادت دی تو نئی نسل کے اندر ایک نیا اسلامی شعور پیدا ہوا‘‘۔ ڈاکٹر اسرار احمد کہا کرتے تھے ’’میں تو علامّہ اقبال ؒ کا قوّال ہوں‘‘۔ عظیم اسکالر مولاناامین احسن اصلاحی فرماتے ہیں مجھے قرآن کے بعض حِصّوں کی تعبیر کے اسلوب پر بڑا ناز تھا ، مگر اقبال ؒ کو پڑھا تو معلوم ہوا وہ مجھ سے پہلے اور بہتر تعبیر و تشریح کر چکے ہیں‘‘۔ (ایسی حیران کُن شخصیّت کا کیا پیغام تھا، یہ آیندہ کالم میں ملاحظہ فرمائیں)۔
The post علّامہ اقبالؒ کو پڑھنا، سمجھنا اور جاننا کیوں ضروری ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yyrlUW
No comments:
Post a Comment