حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید ارشاد فرمایا کہ ’’ ان نیک لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اے سلمان! یہاں جو قوم بستی ہے وہ اہل دین میں شامل ہے اور ہمیں یقین ہے کہ آپ یہاں وہ مناظر دیکھ سکیں گے جن کی جستجو میں آپ اپنا دیس چھوڑکر ہمارے ساتھ چلے آئے، لہٰذا اب آپ یہیں قیام فرمائیے اور ہمیں رخصت کی اجازت دیجیے، اللہ کی قسم ! آپ ہرگز مایوس نہ ہوں گے‘‘مگر میں نے جواباً ان ہی کے ساتھ رہنے کی تکرارکی اور انھیںبتا دیا کہ ’’میں کسی حال میں بھی آپ لوگوں سے جدا نہیں ہونا چاہتا،آپ جہاں جارہے ہیں مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیے‘‘، انھوں نے بتایا کہ ہم پہاڑوں کی طرف جارہے ہیں، بہتر تو یہی تھا کہ آپ یہیں رک جاتے لیکن نہ جانے کیوں آپ کی ضد ہمیں حکم کی مانند لگتی ہے اور اسی بنا پر ہمارے لیے یہ نامناسب ہوگا کہ ہم آپ کو یہاں چھوڑکر چلے جائیںاور اس طرح میں ان کے ساتھ ہی چل پڑا ، ہماری اگلی صبح پہاڑوں میں ہوئی اور ہم ان ہی پہاڑوں کے درمیان چلتے چلتے ایک ایسی چٹان کے پاس جا پہنچے جہاں قطارسے مٹکے رکھے ہوئے تھے جن میں میٹھا پانی موجود تھا اور مٹکوں کے ساتھ ہی تازہ روٹیاں بھی رکھی ہوئی تھیں، یہ میرے لیے یہ انتہائی حیرت اور تجسس کی گھڑیاں تھیں لیکن میں کوئی سوال کیے بغیر ان لوگوں کے ساتھ وہیں بیٹھ گیا، جب سورج مکمل طور پر طلوع ہوگیا تو پہاڑ کے ایک جانب سے لوگوں کی آمدورفت شروع ہوگئی ، انھیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھاکہ جیسے روح ان کے بدن سے جدا کر دی گئی ہے، عجیب ڈرے سہمے سے لوگ تھے جو خاموشی سے آکر ہمارے پاس ہی بیٹھ گئے، کچھ لمحے توقف کے بعد انہو ں نے ہمیں مرحبا کہا اور میرے ساتھیو ں سے دریافت کیا کہ ’’ تم لوگ کہاں تھے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ’’ ہم ان شہروں میں تھے جہاں اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے، اسے یاد نہیں کیا جاتا اور اس کے بندے اس کی عبادت کے بجائے بجھنے والی آگ کی پوجا کرتے ہیں، ہم نے انھیںاللہ کی طرف بلایا لیکن انھوں نے ہمیں وہاں سے نکال دیا‘‘اس دوران وہ میری جانب غور سے دیکھتے رہے اور پھر ان میں سے ایک نے پوچھ ہی لیا کہ ’’ یہ لڑکا کون ہے ؟ اسے پہلے توکبھی نہیں دیکھا؟‘‘انھوں نے مسکراتے ہوئے میرا تعارف کرایا اورکہنے لگے کہ ’’ اس کے دل میں خدائے واحد کے لیے فنا ہوجانے کی تڑپ ہے اور ہم نے اس میں سوائے خیرکے اورکچھ نہیں دیکھا‘‘
ابھی وہ یہی کچھ بتا رہے تھے کہ یکایک ایک دراز قد شخص غار سے نکلا اور سب کو سلام کرکے ہماری جانب چلا آیا، سب لوگوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا اور اس سے ہماری تعریف کرنے لگے، اس نے بھی میرے بارے میں دریافت کیا اور لوگوں کا جواب سن کر اللہ کی حمد و ثنا کرنے لگا، اس کے بعد اس نے ادب سے اللہ کے رسولو ںکا ذکر شروع کیا، پھر ان تکالیف کا بیان کیا جو اللہ کے رسولوں اور انبیا نے اپنی قوموں اور سرکشوں کے ہاتھوں سہیں اور اس کے بعد اس نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا خوب صورت تذکرہ کیا اور بتایا کہ ’’وہ بغیر باپ کے تشریف لائے، وہ مردوں کو زندہ، اندھوں کو بینا اورکوڑھیوں کو تندرست کردینے کی طاقت کے ساتھ بھیجے گئے، ان پر انجیل اتاری گئی اور ان کو تورات کا علم بھی دیا گیااور پھر جب اللہ نے چاہا انھیںاٹھالیا اور وہ دوبارہ تشریف لائیں گے‘‘ اس کے بعد وہ اٹھا اور اس نے کہا کہ جسے پانی پینا ہے پی لے اور جس نے روٹی کھانی ہے کھا لے، بس اپنے آپ کو بکھرنے اور تفرقے سے بچاؤ ، پھر میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ’’میںاس لڑکے کے بارے میں خیرکی وصیت کرتا ہوں اسے قبول کرلو‘‘ اور مجھ سے کہا کہ ’’اے لڑکے! یہی اللہ کا دین ہے اور اس کے سوا سب کفر ہے۔‘‘
حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس سے گذارش کی کہ میں اب آپ کے ساتھ رہوں گا اور آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا‘‘ اس نے کہا کہ ’’ اے لڑکے! تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتے کیونکہ میں صرف اتوارکے دن غار سے باہر نکلتا ہوں، اس سے پہلے باہر نہیں آتا‘‘میں نے مضبوطی سے کہا کہ ’’میں بھی آپ کے ساتھ ہی غار میں ایک جگہ پڑا رہوں گا ، مجھے اپنے آپ سے الگ نہ کیجیے‘‘ اور اندر چلاگیا۔اس نے مجھے دیکھا اور کہنے لگا کہ ’’چلیے! اس طعام میں سے اتنا تو لے لیجیے جو آپ کو اگلے اتوار تک کافی رہے‘‘ چنانچہ میں نے ضرورت کے مطابق اشیاء لیں اور اس کے ساتھ ہی غار میں رہنے لگا۔میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اس شخص کو سوتے دیکھا اور نا ہی کھاتے پیتے مگر جب دیکھا تو رکوع میں یا سجدے میں وہ ہر اتوار کو باہر آتا، جمع ہوئے افراد کو اللہ سے ڈرنے ، تفرقے سے بچنے اور عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کا بندہ اور رسول ماننے کی نصیحت کرتااور پھر ان سے علیحدہ ہوجاتا۔
پھر ایک اتوار ایسا آیاکہ اس نے رب ذوالجلال کی حمدگوئی کے بعد اچانک ہی کہا کہ ’’ مجھے اجل نے آگھیرا ہے، موت لازمی ہے اور اب تم مجھے واپس نہیں لوٹا سکو گے، مجھے یہاں سے جانا ہوگا، اگر زندہ رہا تو واپس آجاؤں گا اور اگر مرگیا تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کو حیات ہے لہٰذا اس لڑکے کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو اور یہاں سے روانہ ہوجاؤ‘‘سب لوگ گھبرا گئے مگر اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا اور اس نے اور ہم نے الگ الگ راہ لی ، ہم مسلسل چلتے رہے، رات ہوتی تو رک جاتے اور دن میں دوبارہ سفر شروع کردیتے، وہ اللہ کے ذکر اور نماز سے پل بھرکے لیے بھی غافل نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم بیت المقدس جاپہنچے جس کے دروازے پر ٹانگوں سے معذور شخص فریادی تھا ، اس نے ہمیں دیکھتے ہی ہمارے رہنما سے کہا کہ ’’اے اللہ کے بندے!آپ میرا حال دیکھ رہے ہیں، مجھ پرکوئی چیز صدقہ کردیجیے‘‘مگر انھوں نے کوئی توجہ نہ دی اور مسجد میں داخل ہوکر نماز پڑھنے لگے۔
عبادت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’’ اے سلمان! میں کئی راتوں سے سویا نہیں ہوں، نیند کا ذائقہ بھول ہی چکا ہوں، کچھ دیرکے لیے سونا چاہتا ہوں، تم بس اتنا کرنا کہ جب سایہ فلاں جگہ تک پہنچ جائے تو مجھے اٹھا دینا اورمیں نے دوران سفر جو باتیں تمہیں بتائی ہیں انھیںیاد رکھنا کہ ’’رب ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہے اور بے شک وہ جلد اپنا ایک رسول بھیجے گاجس کا نام احمد ہوگا اور وہ تہامہ(حجاز مقدس) میں ظاہر ہوں گے ، وہ صدقہ نہیں کھائیں گے مگر ہدیہ قبول فرمائیں گے اور ان کے کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی، تمہیں معلوم ہے کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور شاید ان کو نہ پاسکوں لیکن اگر تم انھیںپالو تو ان ہی کی اتباع کرنا اور وہ جو فرمائیں اسی پر عمل کرنا‘‘ میں نے پوچھا کہ ’’اگر انھوں نے مجھے آپ کا دین چھوڑ دینے کا حکم دیا تب کیا کروں؟‘‘ پادری نے جواب دیا ’’ وہی کرنا جس کا وہ حکم دیں کیونکہ وہی سچ ہوگا، حق ان ہی کے پاس ہے اور وہ رحمن کی رضا کے ساتھ تشریف لائیں گے۔‘‘
حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ’’ پھر میں نے انھیں کافی دیر تک سونے دیا اور جب وہ اٹھے تو سایہ اس جگہ سے گذرگیا تھا کہ جہاں پہنچنے کے بعدانھوں نے مجھے اٹھا دینے کے لیے کہا تھا، وہ گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ ’’سلمان! وہ وعدہ اور ذمے داری کہاں ہے جو تو نے کیا اور اپنے کاندھوں پر لی؟‘‘میںنے کہاکہ ’’چونکہ آپ کئی دنوں کے جاگے ہوئے تھے اسی لیے میں نے یہی بہتر سمجھااور یہی پسند کیا کہ آپ نیند سے بھرپور فائدہ اٹھائیں‘‘انھوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے چل پڑے، دروازے پر وہی معذور شخص موجود تھا، اس نے دوبارہ التجا کی کہ ’’اے اللہ کے بندے!آپ داخل ہوئے تھے تو میں نے سوال کیاتھا پر آپ نے کچھ نہ دیا، اب باہر آئے ہیں تو کچھ دیتے جائیے‘‘عبادت گذار پادری نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے ،اس کے بعد وہ معذور کے قریب ہوا اور اس سے اس کا ہاتھ مانگا، ہاتھ تھامتے ہی اس نے کہا کہ ’’اللہ کے نام سے کھڑا ہوجا‘‘اور وہ کھڑا ہوگیا، اس طرح کہ جیسے کوئی بندھا ہوا کھل گیا ہو، اب اس میں کوئی عیب نہ تھا، انھوں نے جلد ہی اپنا ہاتھ اس سے چھڑایا اور ہمیں محوحیرت میں چھوڑ نہ جانے کہاں چل دیے…!
(جاری ہے)
The post تلاش حق… (دوسری قسط) appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bYwtAn
via IFTTT
No comments:
Post a Comment