بعد میں تو ہمارے گائوں کاپرائمری اسکول اچھا خاصا ترقی یافتہ بلکہ ترقی دادہ اورماڈرن ہوگیا کیوں کہ گائوں کے لوگوں نے تعلیم اورقومی محبت سے سرشار ہوکر قبرستان میں زمین دے دی اورحکومت نے اس پر پکے کمرے ڈال دیے ،فرش ہوگئے ،کمرے دروازے، کھڑکیاں ہوگئیں اورایک کی جگہ پانچ استاد ہوگئے جو سب کے سب ’کوالیفائیڈ‘ یعنی نقل سے پاس اوررشوت سے ’’فائز‘‘شدہ تھے لیکن بڑی سہولت چھٹیوں کی ہوگئی۔
جس دن گائوں میں کبھی کبھی قدرت اوراکثر ڈاکٹروں کے ہاتھوں کاشت کرنے کے قابل ہوجاتا اس دن اسکول میں چھٹی ہوجاتی کیوں کہ جنازگاہ بھی اسکول ہی تھا کیوں کہ ایک وزیر کی تختی اسکول پر ایک طرف لگی تھی اور جنازگاہ کی تختی دوسری طرف لگی تھی،سنگ بنیاد بدست جناب… نیچے فرش کے اندر جو لوگ رہائش پذیرتھے ان کو دونوں سہولتیں ایک ہی جگہ میسرتھیں۔
گائوں میں بوڑھوں اورڈاکٹروں کی کمی نہیں تھی اس لیے ہردوسرے تیسرے دن ایک چھٹی ہوجاتی تھی جس سے بچوں میں بزرگوں کا احترام بھی بڑھ گیا کیوں کہ وہ ان کو ’’چھٹی‘‘ کی نظرسے دیکھتے تھے ،بزرگوں کو دیکھ کر دورسے سلام کرتے اورویسے ہی خوشی کا اظہار کرتے جیسے چھٹی پر ہونا چاہیے۔ آپس میں یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ فلاں جارہاہے بلکہ یہ کہتے وہ دیکھو چھٹی جارہی ہے ۔
ڈاکٹر امرود مردود کو توگائوں کے سارے بچے بہت پسند کرتے تھے اوراس کی مساعی جمیلہ کوسراہتے تھے۔
ہم پرانے اسکول کے پڑھے ہوئے اتنی بے تحاشا چھٹیاں دیکھ کر بہت کڑھتے تھے ،کاش ہمارے وقتوں میں بھی کوئی ’’بدست جناب‘‘ ہوتایا گائوں کے لوگوں کو خیال آجاتاکہ مردے تو نیچے رہائش پذیرہیں اوپر کی بیکارپڑی زمین کو عطیہ کردیں،جس اسکول میں ہم پڑھتے تھے وہ کرائے کے ایک کچے مکان میں تھا بلکہ مکان کی بھی اس پر صرف تختی لگی تھی ،اصل میں ایک ملک صاحب کا مویشی خانہ تھا جس میں جانوروں کے لیے پانی کا انتظام چھت سے کیاگیاتھاجو بارش میں تالاب ہوجاتی اور دوسری بارش تک کفایت کرتی تھی۔
ہم ہرقسم کی اتفاقی چھٹی سے محروم تھے ،ڈاکٹر امرود مردود کا وجودبھی نہیں تھا اس لیے بوڑھے بھی بہت تھے لیکن ابھی چھٹی نہیں بنے تھے،
ہمارے گھر کے قریب ایک شاہراہ عام پر ایک پل کاپشتہ تھا جس پر چاربوڑھے ہمیشہ بیٹھتے تھے جن میں ایک ہمارے دادابھی تھے ،چاروں ہی مدت دراز سے رنڈوے اورسڑک پر آنے جانے والے تانگوں کی گنتی سے دل بہلایاکرتے تھے وہ اپنی اپنی لاٹھیوں سے ٹھوڑیاں ٹکائے اونگھتے رہتے تھے لیکن کسی تانگے کی ٹک ٹک سن کر فوراً’’اسٹینڈ ٹو‘‘ ہوجاتے تھے کیوں کہ بازار اورمزاروں کے لیے آنے جانے والی خواتین ان ہی تانگوں میں ہوا کرتی تھیں،حالانکہ اس زمانے میں ستر پردہ اتنا سخت تھا کہ ہرکوچوان اپنے ساتھ دوبڑی بڑی چادریں مستقل رکھتاتھا جو تانگے میں خواتین کے بیٹھنے کے بعد آگے پیچھے تاننے کے کام آتی تھیں۔
ایک چادراگلی اورپچھلی سیٹ کے درمیان اور دوسری پیچھے پورے تانگے کے گرداگرد ۔یوں خواتین کی جھلک بھی نہیں دکھائی دیتی۔زیادہ سے زیادہ پیچھے ان کے جوتے نظرآتے لیکن رنڈوے بڈھوں کے لیے یہ بھی بہت، جوتوں سے وہ بہت دورتک اپنی دوربین نظروں سے دیکھ لیتے تھے اورپھر آپس میں ان پر تبادلہ خیالات یا تبادلہ فحاشیات اس وقت تک کرتے تھے جب تک دوسراتانگہ نمودار نہ ہوجاتا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے ایک مرتبہ ان بوڑھوں میں سے ایک کابیٹا آیا اورغصے میں ان سے بولا۔تم چاروں ان تانگوں کے ’’چوہدری ‘‘ لگے ہوکیا؟ چوہدری تانگوں پر تعینات ایک سرکاری ملازم ہوتاتھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم یہ کیا فضولیات ہانکنے لگے ہیں تو آپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں لیکن ہم بھی غلط نہیں کیوں کہ آج کل ہماری حالت بھی ان بوڑھوں کی سی ہورہی ہے۔ سامنے نئی سڑک جس کا نام تبدیلی روڈ ہے سرکاری کوچوان اپنے اپنے تانگوںمیں خوبصورت بیانات اورمژدہ ہائے جان فزا کی خواتین بٹھائے آجارہے ہیں۔اس سڑک پراسی پل کے پشتے پربیٹھے بیٹھے ہمارے باپ دادابھی تانگے گنتے گنتے خود گزرگئے اور اب ہم بھی تقریباً گئے گزرے ہونے کے قریب اپنے دادا کی جگہ بیٹھے ان تانگوں پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں لیکن ظالم کوچوان ؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ کم بخت نے بیچ کی چادر ہٹائی ہوئی ہے،خود خوب فیض یاب ہورہاہے اورچاہے تو اگلی سیٹ پر اپنی پسند کی سواریاں بٹھا کر ان کو بھی لطف اندوزہونے کا موقع دے دیتاہے لیکن مجال ہے جو کنارے پل کے پشتے پر بیٹھے ہوئے ہم بڈھوں کو ایک جھلک بھی دیکھنے دے ان بیچاروں کا گزارہ اب بھی جوتوں کی نوکوں یا دھیمی آوازوں پر ہے اورصرف خیال وتصورمیں جیتے ہیں۔
غرض تصورشام وسحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوار ودرمیں جیتے ہیں
ہربگولے میں نظرآتاہے تیرامحمل۔اوراب کے تو سناہے شہرمیں ایک نیامیلہ لگاہے جس کے لیے تانگے پر تانگے جا اورآرہے ہیں جو خوش خبریوں کی دلہنوں سے بھری ہوئی ہیں بلکہ کبھی کبھی تو تانگوں کی باراتیں بھی چڑھ جاتی ہے۔
سب کی باراتیں آئیں میری بھی تم لانا
دلہن بنا کے مجھے اپنے گھرلے جانا
لیکن اگر وہ ہمیں تانگہ بھی دیکھنے نہ دیں اوراس پل کے پشتے سے بھی اٹھادیں تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں البتہ وہ ہمارا سب کچھ بگاڑ سکتے ہیں یہاں سے اٹھا کر اورنظاروں سے محروم کرکے ۔
اب ہم ہیں اور ماتم یک شہرآرزو
توڑا جو تونے آئینہ تمثال دارتھا
ایک پرانا قصہ یاد آ رہاہے اوراب ہمارے پاس پرانے قصوں اورتانگوں کے سوا بچا ہی کیا ہے ،قصہ خوانی بازار کے نکڑ پر ایک افیونی دودھ فروش سے دودھ لے رہا تھا ،شیرفروش نے پیالہ بھر دیا، تو کسی طرف سے دھکا لگا اورپیالہ دودھ سمیت گرکر چکنا چورہوگیا، پرانے وقتوں کا ’’ان ٹیک‘‘ پیالہ تھا،شیرفروش نے ہمددری جتاتے ہوئے کہا،ظالم نے بڑا قیمتی پیالہ توڑدیا۔۔ افیونی دکھ بھرے لہجے میں بولا،پیالہ سرکھائے میرا لاکھوں کا نشہ ظالم نے توڑدیا۔
The post میرا لاکھوں کا نشہ توڑ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xK27mh
via IFTTT
No comments:
Post a Comment