عالمی منڈی میں تاریخ میں پہلی بار خام تیل مفت ہوگیا اور ساتھ ہی ایک بیرل لینے پر کمپنیاں37 ڈالر بھی دینگی۔ پیر کے روز 5 ڈالر فی بیرل کی ریکارڈ کم قیمت سے مارکیٹ کا آغاز ہوا، مستقبل کے معاہدے کی قیمتوں نے ایک گھنٹہ میں ہی منفی میں تجارت شروع کردی اور مارکیٹ کریش کر گئی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تیل کی منڈیوں میں ’’ہارر شو‘‘ کی کیفیت ہے، کوئی مفت میں تیل خریدنے کو تیار نہیں۔ عالمی سیاست میں تیل کی اجارہ دار قوتوں اور کارٹیلز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دنیا کے غریب ممالک چاہیں تو تیل کی اس اضافی اور غیر معمولی پیداوار کو اپنی معیشتوں کے سدھار، بحالی اور غربت ومہنگائی میں کمی کے لیے بہترین حکمت عملی کے ساتھ بریک تھرو کرسکتی ہیں۔
دوسری طرف برس ہا برس سے تیل کی سیاست پر قابض طاقتوں کا موقف ہے کہ اس مسئلہ کی بنیاد ریاض اور ماسکو کے درمیان تیل کی قیمتوں کی باہمی جنگ تک محدود نہیں بلکہ اس میں اوپیک کے حفظ مراتب میں ایک بڑے بھونچال کا عندیہ مضمر ہے، ان حلقوں کے مطابق تیل کی قیمتوں میں تاریخ ساز گراوٹ تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے لیے خوشحالی کی نوید بن سکتی ہے، بشرطیکہ حکمراں دور اندیشی عوام دوستی اور غربت کے خاتمے کے لیے اس نعمت کی قدر کرسکیں۔ اس بات کا بلاشبہ طرز حکمرانی اور ملکی سیاسی رہنماؤں کی عملیت پسندی سے بھی گہرا تعلق ہے، اس وقت پوری قوم تیل کی قیمتوں کے منفی اثرات ونتائج کے حوالہ سے توقعات کے ایک پیج پر ہے اور عام آدمی کی حکومت سے توقعات تو آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تیل کی بے محابہ پیداوار میں کورونا وائرس کا بنیادی کردار بتایا گیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ او پیک کے دوعشروں پر تاریخ میں پہلی بار تیل کی عالمی طلب کم رہی اور امریکی منڈی میں ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ‘‘ کا تہلکہ خیز منظر دنیا نے دیکھا۔ پاکستان میں تیل کی منفی قیمت اور ایک بیرل لینے پر37 امریکی ڈالر ملنے پر بھی خام تیل کی سیاست کو کورونا کی نعمت اور اس کا نتیجہ قراردیا گیا۔ ملکی معیشت اور مجموعی اقتصادی صورتحال کے تناظر میں تیل کے بحران نے حکومت کے لیے سوچ کے کئی دائرے کھول دیے ہیں۔
تیل کی قیمتوں میں اس بدترین مندی کے بعد امریکا میں تیل کی خریداری کے لیے ہونے والے مئی کے معاہدے بند ہوگئے اور امریکی تیل کمپنیاں بند ہونے کے قریب پہنچ گئیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں تیل کی پیداوار جاری رہی تاہم دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث اس کی کھپت نہ ہونے کے برابر رہ گئی، جس کے باعث تیل ذخیرہ کرنے کی جگہ ختم ہوگئی ادھر کورونا وبا کے فوری طور پر ختم ہونے کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے جس کے بعد آئل کمپنیاں تیل مفت دینے کے ساتھ ساتھ ایک بیرل کے بدلے 37 ڈالر بھی اپنی جیب سے دینے پر تیار ہو گئیں۔
میڈیا کے مطابق پاکستان میں بھی مہنگائی میں کمی کا امکان ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو رمضان میں پھل، سبزیاں اور دیگر اجناس کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں کیوں کہ ان پر ٹرانسپورٹیشن کی لاگت کم ہوجائے گی۔ معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت تیل کی قیمتوں کی پیداشدہ موجودہ صورتحال میں عوام کے لیے بڑے ریلیف کا سامان کرسکتی ہے اور ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے بھی نکال سکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت ایک عوام دوست رویے کے ساتھ ’’تیل کی ریلیف‘‘ کے پیش نظر اپنے اقتصادی پروگرام کو معاشی ریلیف اور منشور کی تکمیل کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہے، مثلاً حکومت بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام کو ریلیف دے سکتی ہے۔
یوٹیلیٹیز و دیگر ٹیکسوں کی مد میں بے تحاشہ بوجھ صارفین پر ڈالا گیا ہے اسے کم کیا جاسکتا ہے، تیل کی قیمتوں کے براہ راست کثیرالمقاصد فوائد عوام کو ٹرانسپورٹ کرایوں، پٹرولیم مصنوعات سے ملنے والی چھوٹ اور مراعات کو مہنگائی میں کمی کے لیے لیور کے طور پر استعمال میں لائے جاسکتے ہیں، انکم ٹیکس کی سلیب میں ملازمت پیشہ افراد کو ریلیف، غربت کے خاتمہ کے لیے حکومتی اقدامات، احساس پروگرام سمیت دیگر ریلیف سے متعلق پروگراموں کو ادارہ جاتی اور اجتماعی فلاح وبہبود کی ٹھوس شکل دی جاسکتی ہے، اصولی طور پر تو تیل کی ریلیف عوام کو ٹریکل ڈاؤن نہیں بلکہ براہ راست ایک بڑے ریلیف پیکیج کی شکل میں دینے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔
پٹرول کی مد میں عوام مستحق ہیں کہ انھیں 12 تا14روپے فی کس ملنا چاہیے، پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ سے ٹرانسپورٹرز نے ہمیشہ اضافی کرایے وصول کیے۔ اب عوام کو یہ ریلیف as a whole مل جائے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہے گا، حکومت پانی کے بل معاف کرسکتی ہے، واٹر ٹینکرز عوام کو پانی فروخت کرتے ہیں، یہی پیسہ واٹر ٹینکر مالکان کو اس شرط پر دیا جائے کہ وہ عوام کو مفت پانی مہیا کریں، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی لاکر رمضان المبارک کے مہینے میں سبزیوں، پھلوں، مشروبات و اجناس کے مناسب نرخ مقرر کیے جانے چاہیئں، غربت کے خاتمے کے لیے ان لوگوں کو بطور خاص مدد کی جائے جو خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں ایک طرف دنیا کی معیشت کو بدترین نقصانات کا سامنا ہے تو دوسری طرف لاک ڈاؤن اور ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے دنیا میں تیل کی ضرورت آدھے سے بھی کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو بھی شدید نقصانات کا سامنا ہے۔ امریکی تیل مارکیٹ کریش کرگئی، کوئی مفت لینے کو تیار نہیں، قیمت منفی37 ڈالرز، پاکستان آنیوالے خام تیل کی قیمتیں26 ڈالرز پر برقرار ہیں۔ امریکی خام تیل کے ذخیرے بھر گئے، کئی ملکوں کی طلب کم ہوگئی، تیل کے کنویں بھی بند، 250 فیصد سے زیادہ کمی، تاریخ میں پہلی بار منفی زون میں ٹریڈنگ، ڈاؤ جانس اسٹاکس 2.4 فیصد کم ہوگئے۔ پیر کا دن تیل کی صنعت کے لیے بدترین دھچکا ثابت ہوا، امریکا اور کینیڈا میں آئل مارکیٹس کریش کر گئیں جب کہ قیمتیں صفر سے بھی نیچے چلی گئیں۔
آئل مارکیٹ کریش ہونے کے نتیجے میں قیمتوں نے منفی میں جاکر نئی تاریخ رقم کر لی تاہم پاکستان آنے والے تیل کی قیمتیں 26 ڈالر فی بیرل پر برقرار ہیں۔
1946 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکا میں مستقبل کے تیل کے سودے اور ویسٹ ٹیکساس کی قیمتیں زمین بوس ہو کر صفر سے بھی نیچے گر گئی ہیں۔ تیل کی پیداوار میں خود کو خود کفیل سمجھنے والے ملک امریکا کے خام تیل کی قیمتیں منفی37 ڈالرز فی بیرل تک جا پہنچیں اور مراعات اور سستا تیل فروخت کرنے کے لالچ اور پیشکشیں بھی کام نہیں آ رہیں، یہی وجہ ہے کہ مستقبل کے تیل کے سودے صفر سے بھی نیچے جا چکے ہیں۔ موجودہ صورت حال کو تقریباً 8دہائیوں کے دوران امریکی تاریخ میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ تیل کی قیمتیں پہلے اتنی کم ترین سطح پر کبھی نہیں آئیں۔
امریکا میں ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ خام تیل منفی37 ڈالرز فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے جب کہ انٹرنیشنل بینچ مارک برینٹ کروڈ اپنی کم ترین سطح 26.35 ڈالر فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے۔ صورتحال اس لحاظ سے بھی خراب ہے کہ امریکا میں تیل اسٹوریج کے ٹینک بھر چکے ہیں، جون کے مہینے کے لیے پیشگی کیے جانے والے معاہدے کے لیے قیمتیں 10 فیصد گر گئیں اور اب اس کی نئی قیمت 22.54 ڈالر فی بیرل بتائی جا رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی طلب میں کمی کے بعد تیل پیدا کرنے والی تنظیم اوپیک اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ سرمایہ کار اب بھی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ تیل کی پیداوار کم ہونے کے نتیجے میں قیمتوں میں استحکام آئے گا یا نہیں۔
حکومت اپنے ٹیکس سسٹم اور جی ایس ٹی، ایکسائز ٹیکس، ڈیوٹیز اور انکم ٹیکس میں جس قدر ریلیف عوام کو دے سکتی ہے، یہی موقع ہے کہ ایک ادارہ جاتی اپروچ کے ساتھ متوسط طبقے کی دست گیری کی جائے، اس موقع کو ضایع نہ کیا جائے، معاشی پالیسی سازی میں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بیروزگاری کا کوئی ٹھوس حل تلاش کیا جائے، اقتصادی حکمت عملی کو ملکی ضروریات اور عوامی امنگوں اور خواتین و بچوں کی فلاح وبہبود سے ہم آہنگ کرنے کی جستجو ہونی چاہیے، ایک مربوط سوشل سیکیورٹی اور بیروزگاری الاؤنس سسٹم کی نئی روایت قائم ہو تاکہ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق حکومتی اقتصادی نظام سے ریلیف پاتا رہے۔
تیل کی مفت دھار سدا رہنے والی نہیں، یہ چھپر کبھی کبھار ہی پھاڑ کے ملتا ہے، اب دور اندیشی کا انحصار حکمرانوں پر ہے کہ ریلیف عوام کی دہلیز تک پہنچائیں، امداد لوگوں کو ملے اور وہ نظر بھی آئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل اقتدار اس کہاوت کو غلط ثابت کر دکھائیں کہ ’’نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی ‘‘۔
The post عوام ریلیف کے مستحق ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XRjX1H
No comments:
Post a Comment