Tuesday, 21 April 2020

تعلیم کی تباہ حالی کب تک

ملک میں تعلیم و صحت اور کاروبار میں ہوٹلنگ ایسے شعبے ہیں کہ جو چل جائیں تو وارے نیارے سو فیصد یقینی ہو جاتے ہیں اور نہ بھی چلیں تو روزگار جاری رہتا ہے اور گزارا بھی ہو ہی جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قسمت کا دخل اپنی جگہ مگر کام چلتا ہی رہتا ہے۔

ملک میں تعلیم کا حصول اب سستا اور آسان نہیں رہا اور ہر حکومت تعلیم و صحت کو عوام کے لیے اپنی ترجیح قرار دیتی ہے اور بجٹ میں تعلیم و صحت کے لیے بڑی رقم تو مختص کی جاتی ہے مگر سرکاری اسکولوں اور سرکاری اسپتالوں کی بجائے نجی تعلیمی ادارے اور اسپتال جس تیزی سے پھیل اور پھل پھول رہے ہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کے اس سلسلے میں مختص فنڈز ضایع ہو رہے ہیں اور خاص کر سرکاری تعلیمی ادارے عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں مجبوری ہی میں داخلہ لیا جاتا ہے۔ تعلیم اب مشن سے زیادہ کاروبار بن چکا ہے مگر تعلیم کے جنونی اب بھی موجود ہیں جنھوں نے تعلیم کو اپنی زندگی کا مقصد اور مشن سمجھ رکھا ہے اور کاروبار نہیں بنایا۔ ایسے تعلیمی جنونی ملک میں اب بھی موجود ہیں اور مشکلات اور مصائب کے باوجود تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔

گزشتہ دنوں ایکسپریس کے ایک سینئر کالم نگار ڈاکٹر پروفیسر توصیف احمد خان نے اپنے کالم میں ضلع دادو کے تفریحی مقام مگر پسماندہ علاقے گورکھ ہل کا ذکر کیا تھا کہ جہاں لیاری کے علم دوست شخص نے لوگوں کو تعلیم دینے کا اپنے طور پر کام شروع کیا تھا مگر بعد میں کافی عرصہ مشکلات برداشت کرنے کے بعد انھیں اپنی نجی مجبوریوں کے باعث واپس کراچی آنا پڑا تھا۔

سندھ کے ایک دیہی علاقے سامارو کے نواحی گاؤں ہیمارام کالونی میں ایک تعلیم دوست میاں بیوی رضاکارانہ طور پر 20 سال سے بچوں کو مفت پڑھا رہے ہیں جن کا اسکول کسی عمارت کے بغیر فرنیچر اور بھینسوں کے باڑے میں چل رہا ہے جہاں سے سیکڑوں بچے مستفید ہو چکے اور بہت سے فارغ التحصیل طلبا ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور کئی طلبا سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں نوکریاں بھی کر رہے ہیں۔

یہ کھلے آسمان تلے چلنے والا اسکول بیس سال قبل وفاق کے ادارے بیسک کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا مگر عمارت، فرنیچر اور اساتذہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث اساتذہ نوکری چھوڑ کر چلے گئے تھے جس سے زیر تعلیم طلبا کی تعلیم متاثر ہونے لگی تھی تو علاقے کے نوجوان بھورا کولہی اور ان کی بیوی راج بائی نے رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھانے کی ذمے داری سنبھال لی تھی اور دونوں 20 سال سے کسی معاوضے کے بغیر یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وفاقی ادارے بیسک نے ان سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ اسکول کے لیے عمارت اور فرنیچر کے علاوہ انھیں تنخواہ دے گا مگر معاہدے پر عمل نہیں کیا اور دونوں بیس سال کے طویل عرصے سے کسی معاوضے کے بغیر بچوں کو پڑھا رہے ہیں مگر سندھ حکومت یا کسی ادارے نے اس طرف توجہ نہیں دی۔

بھاولنگر کے علاقے میں ایک ایسے اسکول پر کسی کی نظر نہ گئی جو 32 سال سے عمارت سے محروم ہے اور اسکول کے بچے گرمی سردی کھلے آسمان تلے اور درختوں کے سائے میں اپنے تعلیمی شوق کی تسکین حاصل کر رہے ہیں۔

سندھ و پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور کے پی کے میں بھی تعلیمی پس ماندگی کی صورتحال مختلف نہیں۔ ایسے اسکول اگر میڈیا کی نظروں میں آجائیں تو عوام کو تعلیمی تباہی کا پتہ چل جاتا ہے مگر حکومتوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ملک بھر کے دیہی علاقوں میں گھوسٹ اسکول موجود ہیں۔ سرکاری اسکول زمینداروں کے گودام اور جانوروں کے باڑے بنے ہوئے ہیں جہاں تعینات اساتذہ اپنے افسروں کی ملی بھگت سے بھاری تنخواہیں گھر بیٹھے وصول کرتے ہیں۔ ایسے اسکولوں کے خلاف دکھاؤے کی کارروائی کبھی کبھی نظر آتی ہے۔

محکمہ تعلیم کی نوکری سب سے آسان اور آرام طلب ہے جہاں ڈیوٹی کم اور چھٹیاں زیادہ ہیں۔ ہر سال تنخواہیں بڑھتی ہیں اور کسی بھی سرکاری ادارے کی ملازمت میں یہ مزے نہیں ہیں ۔ جعلی اسناد پر بھاری رشوت دے کر محکمہ تعلیم میں ملازمت مل جاتی ہے اور سیاسی سفارشوں پر جن کو ملازمتیں بااثر سیاسی افراد دلاتے ہیں ۔ سندھ حکومت نے یہ محکمہ ہمیشہ اپنے بااعتماد کو ہی محکمہ تعلیم کا وزیر بنایا ہے اور موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال میں تعلیم کے تین وزیر تبدیل ہو چکے ہیں اور جس وزیر تعلیم نے اصلاح لانے کی کوشش کی اسے فوراً تبدیل کردیا جاتا ہے نہ جانے سندھ حکومت ایسا کیوں اور کس کے کہنے پر کر رہی ہے۔ باقی صوبوں میں بھی محکمہ تعلیم کا یہی حال ہے جنھیں تعلیم کا پتا نہیں ہوتا انھیں سیاسی بنیاد پر وزیر تعلیم لگا دیا جاتا ہے صوبہ کے پی میں ایسے ہی کم تعلیم یافتہ کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا جس پر میڈیا میں بڑی تنقید ہوئی مگر نئے پاکستان میں میڈیا میں آنے والی خبروں اور تنقید کی پرواہ کون کرتا ہے؟

سرکاری اسکولوں میں عمریں گزارنے والوں کی تنخواہیں بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے مگر تعلیم میں تنزلی جاری ہے اور سرکاری اسکولوں میں بھی حکومت کی تعلیمی معیار پر توجہ نہیں ہے بلکہ تعلیمی معیار حکومت نہیں دیکھتی البتہ کبھی کبھی حکومت کو اساتذہ کی غیر حاضریاں ضرور نظر آجاتی ہیں اور موجودہ وزیر تعلیم سعید غنی نے بھی چارج لے کر صبح کے وقت تعلیمی اداروں کے دورے ضرور شروع کیے ہیں جس کے ساتھ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے معیار، طلبا کے پاس و فیل ہونے کی تعداد کے ساتھ یہ بھی تو دیکھا جائے کہ سرکاری اسکولوں میں بچے محض پاس کرائے جاتے ہیں جبکہ امتحانات میں پوزیشنیں ہمیشہ نجی اسکولوں میں ملتی مگر خریدی بھی جاتی ہیں جن کی تشہیر نجی اسکول نمایاں کرکے کرتے ہیں مگر کسی سرکاری اسکول سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ ان کے بچے امتحان میں پوزیشن کیوں حاصل نہیں کرتے اور تعلیم سرکاری طور پر تباہی کی طرف گامزن کیوں ہے؟

The post تعلیم کی تباہ حالی کب تک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VtKgcB

No comments: